نظام تعلیم اور اسلام کے لازوال اصول
نظام تعلیم اور اسلام کے لازوال اصول
ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ شخض اس برطانوی سازشی تعلیمی نظام کا محض ایک پرزہ ہے
میری یہ بات سے دور حاضر کے تعلم داں کو تعلق معلوم ہوگی لیکن میرا ان تعلم داں سے سوال ہے جو نظام تعلیم موجودہ رائج ہے اسکی بنیاد کیا ہے اسکی ترتیب کس نہج پے ہے ؟ کیا یہ تعلم محض معاشرتی نظام چلانے تک محدود ہے ؟
مغربی معاشرے میں ایک فرد کی انفرادی اور ازدواجی زندگی جتنی بھی افراتفری کا شکار ہو ہمارے مطابق ان کی معاشرتی زندگی کی کامیابی ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتی ہے
انکی کامیاب معاشرتی اور سماجی زندگی کی بنیاد بھی اسلام کے لازوال اصولوں پر عمل ہیں
ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اہل مغرب اس پیغام پر ایمان تو نہیں لائے مگر اس پر صدق دل سے عمل کر کے ایک پر سکون زندگی گزار رہے ہیں
جبکہ ہم لوگ اللہ کی واحدانیت اور اسکے دیئے ہوئے فلسفہ حیات پر ایمان رکھتے ہیں مگر ہماری سماجی زندگی میں پائے جانے والی ابتری ، نفسا نفسی ،رشوت ، اقرباپروری ، سفارش ، اور اپنے معاشرتی فرائض سے غفلت ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں کہ یہ اس دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے صرف اسلام کے رہنما اصولوں پر ایمان لانا ہی کافی ہے یا اس پر عمل بھی ضروری ہے
ہمارے تمام مسائل کی اصل وجہ وہ نظام تعلیم ہیں جو ایک سازش کے تحت برطانوی دور میں ترتیب دیا گیا تھا مقصد تھا کہ نوجوان نسل سے اس کی پہچان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور اپنی عقل کو استعمال کرنے کی اہلیت چھین لی جائے تاکہ وہ وفادار غلاموں کی طرح برطانوی اقتدار کو قبول کرلیں بلکہ اس کے لیے کل پرزوں کا کام بھی کریں
یہ اسی نظام تعلیم کا ہی کرشمہ تھا صرف چند سو انگریزدو سو سال تک کروڑوں لوگوں پر حکومت کرتے رہے یہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہماری نسلیں بے مقصدیت کا بدترین نمونہ پیش کرتی ہیں
اس نظام تعلیم سے تربیت پا کر تیار ہونے والی نسل کی تصویر کشی اکبر الہ آبادی ان الفاظ میں کرتے ہیں
لٹریچر کو چھوڑ اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مکتب سے ناطہ ترک کر سکول جا
چار دن کی زندگی ہیں کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
محمد عامر-
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں